بھارت اور امریکہ کے درمیان پانچ دوروں کے تجارتی مذاکرات کے باوجود معاہدہ طے پانے میں ناکامی نے دونوں ممالک کو حیران کن صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی حکام اتنے پراعتماد تھے کہ وہ ایک سازگار معاہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ انہوں نے میڈیا کو یہ تک اشارہ دیا کہ محصولات کو 15 فیصد تک محدود کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ معاہدہ کبھی نہ ہو سکا۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق بھارتی حکام کو توقع تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 1 اگست کی ڈیڈ لائن سے کئی ہفتے پہلے معاہدہ کا اعلان کریں گے لیکن یہ اعلان نہ ہوسکا۔ اب بھارت کو 25 فیصد محصولات کا سامنا ہے جو جمعہ سے بھارتی مصنوعات پر عائد کر دی گئی ہیں اور ساتھ ہی روس سے تیل کی درآمدات پر غیر واضح سزائیں بھی عائد کی گئی ہیں۔
دوسری طرف ٹرمپ نے جاپان اور یورپی یونین کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدے کیے ہیں اور پاکستان کو بھی بہتر شرائط کی پیشکش کی ہے۔
رائٹرز کے مطابق بھارت اور امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دونوں طرف سے مذاکراتی مرحلے میں تکنیکی معاہدے طے پا گئے تھے، لیکن پھر بھی سیاسی غلط اندازے، غلط اشارے اور تلخیوں نے معاہدے کو ناکام بنا دیا۔ دونوں ممالک کی دو طرفہ تجارت 190 ارب ڈالر سے زائد ہے اور اس معاہدے کے ناکام ہونے کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
نئی دہلی میں بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ وزیر تجارت پیوش گوئل ( Piyush Goyal) کے واشنگٹن دورے اور امریکی نائب صدر جے ڈی ونس کے دہلی دورے کے بعد بھارت نے کئی اہم رعایتیں پیش کیں، جن میں امریکی صنعتی سامان پر صفر فیصد محصولات کی پیشکش شامل تھی۔
بھارت نے امریکی گاڑیوں اور الکوحل پر محصولات کم کرنے کی بھی رضامندی ظاہر کی تھی اور توانائی و دفاعی سامان کی درآمدات بڑھانے کی پیشکش کی تھی۔ تاہم، بھارتی حکام کے مطابق امریکہ بھارت کی جانب سے زرعی درآمدات اور دودھ کی مصنوعات پر رعایت دینے پر آمادہ نہیں تھا۔
ٹرمپ کی جانب سے اضافی رعایتوں کی توقعات نے بھارتی حکام کو غلط فہمی میں مبتلا کیا۔ رائٹرز کے مطابق ایک بھارتی حکام نے بتایا کہ پانچویں دور کے بعد بیشتر اختلافات حل ہو گئے تھے، جس سے ایک کامیابی کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن آخرکار یہ معاہدہ طے نہ ہو سکا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فروری میں واشنگٹن کے دورے کے دوران 2025 تک معاہدہ مکمل کرنے کا ہدف طے کیا تھا اور 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 500 ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے امریکی سامان کی 47 ارب ڈالر کی تجارتی کمی کو پورا کرنے کے لیے توانائی اور دفاعی سامان کی خریداری بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔
تاہم، حکام اب تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت نے ٹرمپ کی طرف سے ”بڑے“ معاہدے کے اعلان کے بعد بہت زیادہ پراعتماد ہو کر اسے ایک مثبت اشارہ سمجھا، جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت اپنی پوزیشن سخت کر بیٹھی۔
اس تجارتی ناکامی کے بعد اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا بھارت اور امریکہ کے درمیان اس اہم معاہدے کے امکانات اب کم ہو گئے ہیں؟ اورعالمی تجارت پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟