
لاہور کے علاقے تھیم پارک، موہلنوال اور چوہنگ کے لوگ پچھلے کئی دنوں سے سیلاب کے پانی میں گھِرے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اب پانی کچھ کم ہوا ہے مگر سینکڑوں گھروں میں اب بھی پانی بھرا ہوا ہے۔ جہاں کبھی زندگی رواں دواں تھی وہاں آج مایوسی اور بے بسی کے سائے ہیں۔
موہلنوال کی گلیوں میں کھڑے پانی سے بدبو اٹھ رہی ہے۔ لوگ اپنے ٹوٹے دروازوں اور ڈوبے ہوئے فرنیچر کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو چھپا نہیں پا رہے۔ ایک مقامی خاتون، جن کے پاس اب صرف کپڑوں کا ایک جوڑا بچا ہے، لرزتی آواز میں کہتی ہیں کہ میری عمر بھر کی جمع پونجی تھی، سب بہہ گئی۔ قیمتی کاغذات اور زیورات پانی میں ضائع ہوگئے۔ اب نہ ہمارے پاس چھت ہے نہ سہارا۔
حکومت کی طرف سے متاثرین کو چوہنگ کے ایک سرکاری اسکول میں ٹھہرایا گیا ہے، جبکہ الخدمت فاؤنڈیشن اور پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے خیمہ بستیاں بھی لگائی گئی ہیں۔ مگر امداد کی یہ کہانیاں بھی اپنے اندر تلخ حقیقتیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی لاہور کے کنوینئر قیصر شریف نے الزام لگایا کہ پولیس اور شہری انتظامیہ نے چوہنگ کی الخدمت خیمہ بستی میں متاثرین کو زبردستی خیمے خالی کروانے کی کوشش کی۔ ان کے بقول یہ انتہائی قابل شرم ہے کہ حکومت ریلیف دینے کی بجائے متاثرین کو مزید تکلیف دے رہی ہے۔ اگر ایسا دوبارہ ہوا تو ہم لاہور بھر میں احتجاج کریں گے۔ مرکزی مسلم لیگ کی خیمہ بستی کے ساتھ بھی پولیس اور مقامی حکومتی سیاسی قیادت کی طرف سے ایسے ہی سلوک اور دھمکیوں کی اطلاعات ملی ہیں
متاثرہ علاقوں کے باسیوں کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ان تک کوئی خاطر خواہ مدد نہیں پہنچی۔ مرد و خواتین سب ایک ہی جملہ دہراتے ہیں کہ ہمیں ابھی تک کوئی نہیں پوچھنے آیا۔ ایک بزرگ شہری فرخ آباد سے کہتے ہیں کہ ہم اپنے گھروں میں بھی نہیں جا سکتے کیونکہ دیواریں گرنے کے قریب ہیں۔ جو کاغذات اور سامان بچ سکتا تھا، اسے نکالنے بھی نہیں دیا جا رہا۔
موہلنوال کے قریب ایک بڑی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے سرکاری وسائل کے ذریعے پانی نکالا جا رہا ہے، لیکن قریبی غریب بستی کے لوگ شکوہ کناں ہیں کہ ان کی طرف کوئی نہیں آیا۔ ایک نوجوان نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ہم غریب ہیں اس لیے ہماری کسی کو فکر نہیں۔ ہمارے بچے بیمار ہو رہے ہیں لیکن سب خاموش ہیں۔
سیلاب کے ساتھ آنے والا پانی اب بیماریوں کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ متاثرہ بستیوں میں بچوں میں ملیریا اور خارش پھیل رہی ہے۔ ماں باپ کے چہروں پر پریشانی صاف دکھائی دیتی ہے۔ ایک خاتون نے اپنے کمزور بیٹے کو گود میں لیے کہا کہ دوائی نہیں ہے، ڈاکٹر نہیں ہے، بس انتظار ہے کہ کوئی مدد کو آئے۔
یہ سیلاب صرف مکان ہی نہیں بہا لے گیا بلکہ لوگوں کے خواب اور امیدیں بھی توڑ گیا ہے۔ ماؤں کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے، نوجوانوں میں بے روزگاری کا خوف اور بزرگوں کے دل میں عمر بھر کی محنت ضائع ہونے کا غم ہے۔ تھیم پارک اور موہلنوال کے متاثرہ علاقوں میں آج بھی پانی کے دھیروں میں ماضی کی خوشیاں دفن ہیں۔ یہ لوگ اس وقت صرف ایک سوال کرتے ہیں کیا کوئی آئے گا جو ہمیں دوبارہ جینے کا حوصلہ دے؟